جس کے سبب ہماری طبیعت عجیب ہے |
اس شخص کی بھی یار رفاقت عجیب ہے |
رکھتے ہو اس سے پیار کی امید اب بھی تم |
اے سادہ دل تمھاری بھی چاہت عجیب ہے |
تلوار اپنے ہاتھوں سے دے کر اسے تم اب |
کہتے ہو نا مُراد کی فطرت عجیب ہے |
اب تھام لو جگر کو ستم کے لئے ذرا |
تم کو پتہ چلے۔ یہ اذیت عجیب ہے |
شہرِ محبتاں میں ہے محوِ نوَرد تُو |
لیکن یہاں تو پیاس کی شدت عجیب ہے |
ہے چاک چاک پھر بھی صنم پر ہے یہ فدا |
اس دِل فگار جی میں بھی قوت عجیب ہے |
مانے گا بات زیدؔی یہ دل آپ کی کہاں |
اس کو ہوئی جو اُن سے محبت عجیب ہے |
معلومات