نگر دل کا لٹا بستا نہیں ہے
سفر تنہا بھی اب کٹتا نہیں ہے
چلیں تو خوف آتا ہے جہاں سے
ہوا پر زور کچھ چلتا نہیں ہے
لگی ہر ٹوٹتی ہے آس دل کی
زمیں آکاش سب ملتا نہیں ہے
سکوں پاتا نہیں ہے ہجر میں من
پہر غم کا کوئی ٹلتا نہیں ہے
اتر آتی ہے شامے کربلا پر
چراغوں میں لہو جلتا نہیں ہے
بدل جاتا ہے ہر رشتہ وفا کا
زباں کا بول بھی کھلتا نہیں ہے
دلوں میں اٹھتی ہے دیوار شاہد
فقط حصوں میں گھر بٹتا نہیں ہے

0
84