مجھ کو دشمن سے نہیں یار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے ڈر لگتا ہے
روند کر پاؤں تلے وقت نکل جاتا ہے
اے زمانے تری رفتار سے ڈر لگتا ہے
وہاں آسیب اتر آتا ہے جہاں پیار نہ ہو
ایسے گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
اب جو دستار گرانے کی روایت ہے چلی
مجھ کو سر پر رکھی دستار سے ڈر لگتا ہے
شاہ نے سر کی جو بڑھائی مرے قیمت اتنی
مجھ کو اب یارِ وفادار سے ڈر لگتا ہے
مری ہر چیز نرالی ہے زمانے بھر سے
اے زمانے ترے معیار سے ڈر لگتا ہے

0
74