دل پہ ہر روز نئے زخم لگا دیتی ہے |
زندگی یوں بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے |
مجھ سے خود اپنی ہی صورت نہیں دیکھی جاتی |
زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے |
ہم کو فاقوں میں بھی مل جاتی ہے قربت رب کی |
ہم غریبوں کو تو غربت ہی مزہ دیتی ہے |
آج پھر میرے عزیزوں نے کنارا ہے کیا |
مفلسی اپنوں کو بیگانہ بنا دیتی ہے |
خوابِ غفلت میں اگر دیر تلک سو جاؤں |
ماں مجھے لہجۂ شیریں سے جگا دیتی ہے |
میں ہوں پہلے ہی گرفتارِ غمِ عشق جناب |
دردِ دل اور بہاریں یہ بڑھا دیتی ہے |
جانے کس بات کا احساس دلانے کے لیے |
خاک لے کر وہ ہواؤں میں اڑا دیتی ہے |
میرے ہو جاتے ہے گم عقل و خرد ہوش و حواس |
چشمِ جاناں مجھے دیوانہ بنا دیتی ہے |
مجھ کو یہ ہی تو ادا بھاتی ہے اس کی احسنؔ |
جب نظر اپنی جھکا کر وہ اٹھا دیتی ہے |
معلومات