آنکھوں کو یونہی کوئی خواب دکھانا تھا مجھے |
خوابوں کے شہر میں ورنہ کہاں آنا تھا مجھے |
قیس کے دشت میں اک شہر بسانا تھا مجھے |
عشق ہے کیا یہ زمانے کو دکھانا تھا مجھے |
وہ بھی مجبور تھی وہ شخص بھلانا تھا اسے |
میں بھی مجبور تھا ہر حال نبھانا تھا مجھے |
اپنے دل کو بجھا کے زخم جلائے ہیں میں نے |
یاد کے زرد چراغوں کو بجھانا تھا مجھے |
اس کو ہی جلدی لٹانے کی تھی مجھ کو ورنہ |
رفتہ رفتہ متاعِ جاں کو لٹانا تھا مجھے |
کر رہا تھا اسی سے ترکِ تعلق جس سے |
گہرا سا کوئی تعلق بھی بڑھانا تھا مجھے |
وہ جہاں زاد کی صورت میں بھی کچھ اور ہی تھا |
اس حسیں راز سے بھی پردہ اٹھانا تھا مجھے |
جانے اتنی بھی شرافت سے وہ کیوں رہنے لگے |
ان شریفوں کی گلی شور مچانا تھا مجھے |
جمع کرتا ہی کیوں کر یہ متاعِ بے بہا میں |
ویسے بھی سب کسی دن چھوڑ کے جانا تھا مجھے |
معلومات