کچھ تو کہا کافی کچھ تھا کہنا رہ گیا
یوں اک غم تھا جو سینے میں سہ گیا
ہے عادت طوفاں سے ٹکرانے کی
میرا مکاں تھا جو طوفاں میں بہہ گیا
ابھی غوری

114