کہاں اے پردہ نشیں خود کو چھپایا ہوا ہے
تیرا دیوانہ ترے شہر میں آیا ہوا ہے
تیری تصویر نے تسخِیر کِیا ہے دل کو
تیرا ہی عکس مرے ذہن پہ چھایا ہوا ہے
دل ہے سادہ کہ سمجھ بیٹھا ہے اس کو غم خوار
وہ جو اپنے ہی کسی کام سے آیا ہوا ہے
اپنی راہوں کو بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے
ہم نے منزل کو بھی دنیا سے چھپایا ہوا ہے
عشق کی آگ پہ کاغذ کی چلا کر کشتی
ایک دیوانے نے دنیا کو ہلایا ہوا ہے
میرے خوابوں کو مکمّل نہیں ہونے دیتیں
میری نیندوں نے بہت مجھ کو ستایا ہوا ہے
تیری پھونکوں سے یہ بجھنے نہیں والا ! قاتل
سر‌ِ مقتل جو دِیا میں نے جلایا ہوا ہے
اُن پہ یہ انفس و آفاق بھی قربان حیاتؔ
مرکزِ عشق جنھیں ہم نے بنایا ہوا ہے

0
87