| درد مجھ کو دیا کرے کوئی! |
| اور مجھ پر ہنسا کرے کوئی! |
| کیوں نہ ہوں ہر طرف اجالے پھر |
| رات بھر جب جلا کرے کوئی! |
| کاش! کوئی مجھے تسلّی دے |
| آہ! دل کی سُنا کرے کوئی! |
| مجھے اُس پر نمک چھڑکنا ہے |
| زخم دل کا ہرا کرے کوئی! |
| میں نبھاؤں گا میرا وعدہ ہے |
| مجھ سے وعدہ کیا کرے کوئی! |
| حاسدوں کی نظر نہ لگ جائے |
| تخلیے میں ملا کرے کوئی! |
| اُس کی فطرت میں بے نیازی ہے |
| لاکھ جاں کو فدا کرے کوئی! |
| دنیا دیکھے گی شوخؔ کی شوخی |
| میر و غالب ہوا کرے کوئی! |
معلومات