دل میں اُٹھتا جا رہا ہے
ایک خواب آہستہ آہستہ
بن رہا ہے حُسن کا
یہ انقلاب آہستہ آہستہ
چاندنی میں گھل گئی
اُس کی ادا کی نرم لَے
کھل رہا ہے چہرہ جیسے
ماہتاب آہستہ آہستہ
دھوپ میں بھی اُس
کے سائے کی مہک باقی رہی
چل رہی ہے یاد کی یہ
گردِ آب آہستہ آہستہ
ہونٹ چُپ ہیں، دل
مگر سب کچھ کہے جاتا ہے اب
ہو رہا ہے عشق کا یہ
احتساب آہستہ آہستہ
درد کی شدت میں بھی
اک لُطف محسوسِ وفا
ہو گیا تسلیم یہ
سارا عذاب آہستہ آہستہ
وقت کا لمحہ رُکا،
سانسیں ہوئیں جیسے غزل
چھو گیا سبدرؔ کو اُس
کا انتساب آہستہ آہستہ

0
4