کس شہر آگئے ہیں جس سمت دیکھتے ہیں
بس رہزنوں بھرے اور پُر خار راستے ہیں
حق گوئی کی جہاں میں امید کس سے ہو پھر؟
آئینے بھی یہاں تو اب جھوٹ بولتے ہیں
غمگیں ہو دوستی کا بندھن یوں ٹوٹنے پر!
پل میں یہاں تو خونی رشتے بھی ٹوٹتے ہیں
حاکم سے کیا شکایت، اب پیسہ دیکھ کر تو
ایمانِ زاہداں بھی اکثر ہی ڈولتے ہیں
یارو! کوئی عجب سا اب دور آ گیا ہے
لوگ اب مجازی چاہت میں کفر بولتے ہیں
سب کو بدی کی ایسی عادت پڑی کہ عاجز
نیکی کے کام میں اب تو ہاتھ کانپتے ہیں

0
9