کشمکش زندگی تجھ سے ہی ملی قوت ہے
شامل حال نہ ہو گر کرب تو کہاں لذت ہے
کتنا پر خطر رہتا ہے علم وفن سے اجتناب
پھر دیر سویر ہوتا ضرور زوال شوکت ہے
دل جیت لے کبھی نفیس انداز تکلم بھی
پر شوخئی تبسم سے ٹالنا بڑا سخت ہے
کر چکے ادا سلف صالحین تو اپنا فریضہ
حاصل ہو شمعہ ہمیں تو متاع آخرت ہے
نور حق گھنی تاریکیوں کو بھی ماند کریں
خوشحالی ہو کہ مخلصین چراغ ہدایت ہے
کون کس کا ہوتا ہے مفاد پرستی میں ناصر
درد مند انساں ہی اصل میں رہبر ملت ہے

61