جسم میرا خاک تھا پھر خاک ہو کر رہ گیا
نام پتھر پر کھدا تھا نام ہی بس رہ گیا
کیسے کیسے نامور تھے خاک میں زم ہو گئے
اک قلندر خامشی سے کان میں یہ کہہ گیا
میں کھڑا تھا جن کی خاطر سنگ انہی ہاتھوں میں تھے
سیلِ غم کے سامنے تو میں اسی دن ڈھ گیا
اس قدر صدمے اٹھائے اشک پتھر ہو گئے
میں بہت حیران ہوں کیسے یہ سب کچھ سہہ گیا
کل تو شاہدؔ ڈٹ گیا تھا سامنے دریا کے بھی
آج تنکے کی طرح اک موج میں ہی بہہ گیا

0
34