کُچھ بھی کر لو یہ چمت کار نہیں ہونے کا |
اب مُجھے عِشق دِگر بار نہیں ہونے کا |
اِتنی سنگین چٹانوں سے تراشا ہے دِل |
چوٹ لگنی نہیں، آزار نہیں ہونے کا |
گالِیاں تک مجھے دے سکتے ہو تنہاٸی میں |
پر تماشہ سرِ بازار نہیں ہونے کا |
دِل وہ آزادہ و خُود بِین بنا ہے اب کے |
تُو بھی چاہے تو گرفتار نہیں ہونے کا |
مخملِیں جِسم کو نوچے گا سِیہ چشم رقیب |
یہ وہ سگ ہے جو وفادار نہیں ہونے کا |
ہم مُروّت میں اُسے منہ تو لگا لیتے ہیں |
یار کا یار مگر یار نہیں ہونے کا |
اِتنی شوخی نہ دِکھا اے مرے آٸنہ جمال! |
دِل ترے حُسن سے سرشار نہیں ہونے کا |
اب اُسے دیکھنا ہے، دیکھتے رہنا ہے فقط |
عِشوہ و غمزہ و گُفتار نہیں ہونے کا |
قلب رہتا ہے سدا مستِ خِرَد آشوبی |
یہ کسی آنکھ سے مے خوار نہیں ہونے کا |
پی کے سویا ہے ترا شہر جہالت کی افِیم |
اب کوئی بھی یہاں بیدار نہیں ہونے کا |
دِل کمینہ ہے ترا آنکھ ہے میلی تیری |
اوڑھ کے فقر تُو اوتار نہیں ہونے کا |
میری تخلِیق پہ یہ چاند ستارے بولے |
خاک زادہ فلک آثار نہیں ہونے کا |
چھوڑ سکتے ہو مجھے بُھول نہیں سکتے ہو |
یہ نہیں ہونے کا، سرکار! نہیں ہونے کا |
یہ کوئی آتشِ نمرُود نہیں ہے امبر |
شعلہِ عِشق ہے، گُل زار نہیں ہونے کا |
معلومات