دلِ کُشتہ ، کسی کو دے دیا ہے
تو کیا دھوکہ ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں تک ہجر کا دُکھ ، دل میں رکھتے
یہ دُکھ اپنا ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں سے لائیں اب جا کر دل اک اور
جو اپنا تھا کسی کو دے دیا ہے
قرار اپنے ہی دل کو دے نہ پائے
تو کرتے کیا ، کسی کو دے دیا ہے
ضروری تو نہیں دل ، پاس رہتا
نہیں رکھّا ، کسی کو دے دیا ہے
دل اپنے پاس رکھتے ، ٹوٹ جاتا
کِیا اچھا ، کسی کو دے دیا ہے
نہیں ہے دردِ دل طارق جو باقی
گلہ شکوہ ، کسی کو دے دیا ہے

0
14