کھڑے کھڑے یہ کس طرح کی واردات ہو گئی
کچھ ایسے پھر سحر ہوئی کہ ختم رات ہو گئی
ابھی تھے ہم شباب میں کہ تم ملے تھے خواب میں
تم آئے اس طرح کہ شب، شبِ برات ہو گئی
پتہ چلا وجود کا تمہارے ، اس طرح ہمیں
کہ حمد میں تمہاری محو ، کائنات ہو گئی
وہ کیا گھڑی تھی جو تمہارے قُرب میں گزر گئی
تمہارے نام اس کے بعد ، تو حیات ہو گئی
جو غور کائنات پر کیا تو ہم نے یوں لکھا
قلم کے ساتھ ختم پھر ، مگر دوات ہو گئی
تِرا مقام عرش پر ، زمیں پہ ہے مری جگہ
فلک کی خاک پر ، نگاہِ التفات ہو گئی
نماز میں سبھی کھڑے تھے ایک صف میں پھر بھلا
یہ کیا ہوا کہ درمیاں میں ذات پات ہو گئی
ہے طارق اب یہی دعا، کہ ہو معاف ہر خطا
کہے مجھے کوئی کہ آ ، تری نجات ہو گئی

0
45