کچھ اور گہرے دل پہ لگے وار ہو گئے
اب تو عزیز ہجر کے آزار ہو گئے
تھے انتظار میں کہ کوئی چارہ گر ملے
تیرے فراق میں کئی بیمار ہو گئے
گھائل ہوئے تو گِر گئے تیرے حضور میں
تیرِ نظر دلوں کے ہیں جو پار ہو گئے
ہے سِحرِ حسن یا کہ ہے احسان کا اثر
سب جان و دل گنوانے کو تیّار ہو گئے
مانا سفر کٹھن تھا مسافت تھی دُور کی
اب قُرب تیرا پانے کے آثار ہو گئے
جب چل دیے تو قافلہ بڑھتا چلا گیا
جو ایک تھا وہ اب کئی ہزار ہو گئے
طارق ہوا ہے اس کے جو بھی عشق میں فدا
اس کے لئے صنم کدے بیکار ہو گئے

0
11