بھول جانے پر بھی مجھ کو یاد آ جاتے ہو تُم |
سامنا ہو جائے تو مِلنے سے کتراتے ہو تم |
گر اچانک راہ میں مل جائیں تو پھر یک بیک |
چھوڑ کر میری ڈگر راہوں سے ہٹ جاتے ہو تم |
زندگی گزری تری لیلائے شب میں ہم وطن |
اس لئے خورشید کی کرنوں سے گھبراتے ہو تم |
چھینا جپٹی کر کے جن پر ظلم کے توڑے پہاڑ |
اب انہیں کے سامنے آنے سے شرماتے ہو تُم |
آگ لگ جائے خدایا ایسی چلمن کو کبھی |
جو ہمیشہ گھر کے دروازے پہ لٹکاتے ہو تم |
اس دلِ رنجور کو کر کے اذیّت آشنا |
کہہ رہے ہیں اقربا دن رات پچھتاتے ہو تم |
اتنا جبر و جَور ہے اس دَور میں خواجہ امید |
بارہا ان تذکروں سے جان چھڑواتے ہو تم |
3 |
معلومات