لفظوں کا بدل جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے عوض لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے تھی کیا اس سوچ کے آسماں پر
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا
اسرار کوئی بھی وقت کے آ ئے سمجھ نہ مجھے
رفتار کے جو درجات کمانے نکلا تھا
کھو چکا متاعِ زیست اس راہِ محبت میں
گُم گشتہ اپنی ذات کمانے نکلا تھا
ہمایوںؔ

0
115