| لفظوں کا بدل جذبات کمانے نکلا تھا |
| برسوں کے عوض لمحات کمانے نکلا تھا |
| امید نجانے تھی کیا اس سوچ کے آسماں پر |
| صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا |
| آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو |
| میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا |
| اسرار کوئی بھی وقت کے آ ئے سمجھ نہ مجھے |
| رفتار کے جو درجات کمانے نکلا تھا |
| کھو چکا متاعِ زیست اس راہِ محبت میں |
| گُم گشتہ اپنی ذات کمانے نکلا تھا |
| ہمایوںؔ |
معلومات