عُمر دلاسوں میں کٹ رہی ہے
یہ غم جوانی کو کھا رہے ہیں
مری نہ کمرے سے لاش نکلے
تری نشانی ہٹا رہے ہیں
ابھی تو باقی ہیں خط تمھارے
جو جل کے مجھ کو جلا رہے ہیں
تری محبت سے دشمنی تھی
ترے تو اپنے بتا رہے ہیں
مجھے انہی کے حوالے کرتی
جو قہقہے اب بنا رہے ہیں
کسی میں تم تھی کسی میں میں تھا
یہ خواب مجھ کو رلا رہے ہیں
کوئی جوانی میں مر رہا ہے
کئی کہانی مٹا رہے ہیں
اگر تو مانگے تو جان حاضر
کبھی تو ہم بھی عطا رہے ہیں

0
80