میں جب بھی شعر کہتا ہوں |
تمہیں لگتا ہے کاغذ پر میں ٹسوے چن کے رکھتا ہوں |
حقیقت میں، |
میں خنجر لے کے سینہ چاک کرتا ہوں |
بپھرتے، پھڑ پھڑاتے ایک ٹکڑے پر |
میں خنجر کو دباتا ہوں |
میں پھر اُس خوں زدہ، ہنجار خنجر کو گھماتا ہوں |
اُسے پھر چوم کر میں رقص کرتا ہوں |
کہ رومی رقص کرتے ہیں |
سو یہ خنجر بھی میری طرز کاغذ پر ٹہلتا ہے |
اسی کے سرخ لہجے سے ترا پھر ذکر ہوتا ہے |
جسے ہم ساز کہتے ہیں |
جسے سب سوز لکھتے ہیں |
جسے فرقت، غمِ ہجراں، سفِ ماتم بھی کہتے ہیں |
یہ کوئی داستاں گوئی نہیں کاغذ کے چہرے پر |
یہ میرا رقصِ رومی ہے۔ |
معلومات