| حواس اپنے بھی سارے گنوا کے بیٹھے ہیں |
| تمہارے حسن پہ نظریں جما کے بیٹھے ہیں |
| اداؤں نے تو بڑا سحر کر دیا جیسے |
| صنم تو مجھ سے مرا دل چرا کے بیٹھے ہیں |
| حسین طرز نمایاں ہی زیست میں پایا |
| مکان خوابوں کا دلکش بسا کے بیٹھے ہیں |
| شگوفہ مسکرانے سے فضا معطر ہو |
| مہک سے من کو چمن میں لبھا کے بیٹھے ہیں |
| ہوس میں ہر کس و ناکس ہی پھنستا جاتا ہے |
| بُری بلا سے بھی پیچھا چھڑا کے بیٹھے ہیں |
| کہ ذہن بننے سے باتیں سمجھنا تھیں آساں |
| یہ جزبہ، روح سبھی کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں |
| سماجی کام کو ناصؔر فریضہ ہی جانے |
| سعی، محن میں تبھی تو تھکا کے بیٹھے ہیں |
معلومات