عطار کا مِٹھّو پیارا ہے، ہر ایک کی آنکھ کا تارا ہے
عطار کی قُربت ایسی مِلی، مِٹّھو یہ نصیب تمھارا ہے
انداز نرالے تیرے ہیں، وہ ناز اُٹھاتے تیرے ہیں
مسند سے اٹھنے کو کہنا، عطار کو کب یہ گوارا ہے؟
اِنعام ملیں، اِکرام ملیں، ہم رشک بھی تم پر خوب کریں
عطار کے تقوے کی ہو جھلک، عطار نے تم کو نکھارا ہے
تم رونق ہو اس مَحفِل کی، تم موجِ رواں ہو ساحِل کی
تم چاند اُفُق کے ہو مِٹھّو، یہ منظر کتنا پیارا ہے
دشمن کی میلی نگاہوں سے، رب تم کو بچائے بلاؤں سے
ہو عُمرِ خضری تم کو عطا، دل جان تُمھی پر وارا ہے
اب اِذن مدینے کا ہو عطا، مِٹھّو کر دو تم خاص دُعا
عطار کرم زیرکؔ پہ کریں، مُدؔت سے ترسے بِچارا ہے

0
17