مرا یہ سایا کہاں گیا کر چراغ روشن
ہو گھر کے باہر ہو گھر کے اندر چراغ روشن
میں تب کے مانوں ترے وظیفے اے میرے مرشد
کہ جب تو کر لے تہہِ سمندر چراغ روشن
بڑا عجب ہے کہ روز کمرے میں اب نمی ہے
یہ کون کرتا ہے مثلِ پیکر چراغ روشن
کوئی تو ہے اب جو مجھ کو چپ کے سے دیکھتا ہے
سو میرے گھر پر ہے رہتا اکثر چراغ روشن
مرے لحد سے ذرا سی مٹی جلا کے سن لے
تو روز کرنا مرے مجاور چراغ روشن
یہ بات ہے اور کہ مجھ کو مارا ہے تیرگی نے
مگر ہمیشہ رہے گا در پر چراغ روشن
یہ کیسا عالم ہوا یہاں اب کہ اس کے آنے
پہ وقتِ رقصاں ہوا قلندر، چراغ روشن

0
1
235
عقیل صاحب - یہ غزل مرے حساب سے آپ نبھا نہیں سکے ہیں- تعقید لفظی و معنوی سے بھر پور ہے

مرا یہ سایا کہاں گیا کر چراغ روشن
ہو گھر کے باہر ہو گھر کے اندر چراغ روشن
--- کر گیا ایک مکمل فعل ہے آپ قافیہ بنانے کے لیے اس توڑ کر" گیا کر" نہیں سکتے- یہ غلط اردو ہے

میں تب کے مانوں ترے وظیفے اے میرے مرشد
کہ جب تو کر لے تہہِ سمندر چراغ روشن
---- تب کے مانوں اردو میں استعال نہیں ہوتا - تب مانوں کہتے ہیں؎

بڑا عجب ہے کہ روز کمرے میں اب نمی ہے
یہ کون کرتا ہے مثلِ پیکر چراغ روشن
--- نمی کا چراغ سے کیا تعلق ہے ؟ اور مثلِ پیکر سے کیا مراد ہے ؟ کسکا پیکر ؟

کوئی تو ہے اب جو مجھ کو چپ کے سے دیکھتا ہے
سو میرے گھر پر ہے رہتا اکثر چراغ روشن
----- چپ کے تو نہہیں دیکھتے ہیں - چھپ کے دیکھتے ہیں

مرے لحد سے ذرا سی مٹی جلا کے سن لے
تو روز کرنا مرے مجاور چراغ روشن
--- مٹی جلائ کب جاتی ہے ؟ مری لحد ہوتا ہے مرے نہیں - سن لے ایک تنبیہ ہوتی ہے آپ مجاور کو کس بات پہ تنبیہ کر رہے ہیں ؟

یہ بات ہے اور کہ مجھ کو مارا ہے تیرگی نے
مگر ہمیشہ رہے گا در پر چراغ روشن
---- ہے کا دو دفعہ استعمال بات خراب کرتا ہے اور کس کے در پہ چراغ روشن رہے گا؟

یہ کیسا عالم ہوا یہاں اب کہ اس کے آنے
پہ وقتِ رقصاں ہوا قلندر، چراغ روشن

-- ہم جملے کو توڑ کے دو مصرعوں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔" آنے پہ" ایک ہی مصرعے میں ہونا چاہیۓ

آپ کے ہاں بنیادی زبان و بیان سے ناواقفیت ہے جو صرف اور صرف پڑھنے سے آتی ہے
جب تک آپ پڑھیں گے نہیں لکھ نہیں سکیں گے

0