| مرا یہ سایا کہاں گیا کر چراغ روشن |
| ہو گھر کے باہر ہو گھر کے اندر چراغ روشن |
| میں تب کے مانوں ترے وظیفے اے میرے مرشد |
| کہ جب تو کر لے تہہِ سمندر چراغ روشن |
| بڑا عجب ہے کہ روز کمرے میں اب نمی ہے |
| یہ کون کرتا ہے مثلِ پیکر چراغ روشن |
| کوئی تو ہے اب جو مجھ کو چپ کے سے دیکھتا ہے |
| سو میرے گھر پر ہے رہتا اکثر چراغ روشن |
| مرے لحد سے ذرا سی مٹی جلا کے سن لے |
| تو روز کرنا مرے مجاور چراغ روشن |
| یہ بات ہے اور کہ مجھ کو مارا ہے تیرگی نے |
| مگر ہمیشہ رہے گا در پر چراغ روشن |
| یہ کیسا عالم ہوا یہاں اب کہ اس کے آنے |
| پہ وقتِ رقصاں ہوا قلندر، چراغ روشن |
معلومات