میرے دل سے اتر گئی ہوگی
پھر نہ جانے کدھر گئی ہوگی
وہ جو تھی خواب سی شفق زادی
کس کی باہوں میں مر گئی ہوگی
دور جا کر ذرا سنبھل کر وہ
مجھ پہ الزام دھر گئی ہوگی
مجھے بھی کب رہا ہے پاسِ وفا
وہ بھی شاید مکر گئی ہوگی
میری حالت سے بے خبر ہو کر
وہ کسی اور پر گئی ہوگی
یادوں کے آسماں سے تنہائی
زینہ زینہ اتر گئی ہوگی
چاندنی رات میں اداسی بھی
دور گاؤں میں در گئی ہوگی
اپنی حالت پہ ہنس رہا ہوں میں
وہ بھی کیا سوچ کر گئی ہوگی
اک خلش تھی جو ساتھ رہتی تھی
اب وہ بھی بے اثر گئی ہوگی
اک تماشا تھا تیرے جانے کا
پھر کہاں یہ نظر گئی ہوگی؟
ہائے تجھ تک پہنچنے سے پہلے
میری آواز مر گئی ہوگی
تجھ سے ملنے کی آرزو لے کر
زندگی ہار کر گئی ہوگی
دل کی دہلیز پر سرِ شام آج
ایک امید آ کے مر گئی ہوگی
خواب پلکوں پہ رقص کرتے تھے
رات ان کو کتر گئی ہوگی
تجھ سے بچھڑا تو یہ گماں ہے مجھے
میری حالت سنور گئی ہوگی
وقت کا زہر پی رہا ہوں میں
پیاس ہی میری بھر گئی ہوگی
اپنی حالت پہ کیا ہی کہنا اب
خامشی سب کہہ کر گئی ہوگی
کبھی تو بات سیدھی بھی کِیا کر
وہ تو بیچاری ڈر گئی ہوگی
زندگی چلتے چلتے پھر شاید
موت سے بھی گزر گئی ہوگی

0
46