چمن میں ایک خزاں کا اثر کچھ ایسا تھا |
کہ گُل کھلا تھا جو، پل میں وہ مرجھا بھی گیا تھا |
یہی تھا خواب کہ تم سے کبھی گلہ بھی نہ ہو |
مگر یہ دل بھی حقیقت سے کچھ تھکا سا تھا |
کہیں پہ روشنیوں کا سراغ مل نہ سکا |
چراغِ شام بھی جیسے بجھا بجھا سا تھا |
محبتوں کی وہ خوشبو جو گُلوں میں تھی بسی |
وفا کی خوشبو کے جیسا وہ اب بکھر گیا تھا |
سفینہ ءِ وفا کے بادبان بھی ٹوٹے |
ہوا کا رخ بھی جدھر تھا، وہ بھی ادھر گیا تھا |
گواہ تھے جو وہ سارے، کہیں بھی جا نہ سکے |
عدالتوں کا بھی انصاف مر چکا سا تھا |
یہ دل بھی کہتا ہے اب کوئی آسرا بھی نہ دے |
کہ راستہ ہی کوئی درمیاں ٹھرا سا تھا |
معلومات