نوائے درد بڑھ جائے تو آخر نوحہ بنتی ہے
یہی وہ موجِ دریا ہے جو گِر کے پھر مچلتی ہے
جنم سے قبر تک کا فاصلہ از بس کہ چھوٹا ہے
یہ شمع شام سے صُبحِ منوّر تک ہی جلتی ہے
ادھر انسان لمبے لمبے منصوبے بناتا ہے
اُدھر تقدیر اس کی خواہشوں پر ہاتھ ملتی ہے
اکیلی جان پر لمبی قطار امید واروں کی
یقیناً لاٹری تو ایک عاشق کی نکلتی ہے
سبھی پیر و جواں افسردہ و ششدر ہیں محشر میں
نہ جانے کون خوش قسمت ہے جس کی دال گلتی ہے
غمِ ہجراں نے زخمی کر دئے قلب و جگر میرے
ابھی کیا علم کہ کب تک یہ ہجرت ساتھ چلتی ہے
نہ جانے اور اس عمرِ رواں نے کیا دکھانا ہے
یہ وہ گاڑی ہے جو ہر موڑ پر کانٹا بدلتی ہے

0
134