سفر کا شوق بھی ، منزل کی آرزو بھی ہے
کبھی ہو اس سے ملاقات ، جستجو بھی ہے
یقین رکھتے ہیں اس پر کہ بولتا ہے وہ
کبھی ہماری ہوئی اس سے گفتگو بھی ہے
جو آگئے ہیں جھجکتے نہیں ہیں پینے سے
یہ میکدہ ہے یہاں جام اور سبو بھی ہے
کیا ہے ہم نے بھروسہ ہمیشہ لوگوں پر
اگرچہ دوستوں میں ہی کہیں عدُو بھی ہے
کسے ہے فکر یہاں کون پاک دامن ہے
نماز پڑھنے کو آیا جو باوضو بھی ہے؟
نہ باز آئے گا شیطان چال چلنے میں
دلوں پہ اس کا اثر ہے ، وہ خوبرو بھی ہے
اگرچہ جیت بھی جائے وہ ہیرا پھیری سے
ہوا وہ اپنی نگاہوں میں سرخرو بھی ہے؟
کبھی نہ بھولنا ، دھوکہ دیا اگر طارق
ضمیر اپنا کبھی ہوتا روبرو بھی ہے

0
34