سُن کے سوھنی کی کہانی داستاں سمجھا نہ کر
عشق میں دیتا ہے جاں کوئی کہاں سمجھا نہ کر
ہر کوئی تعبیر پائے گا جو دیکھے گا اسے
زندگی کو ایک خوابِ رائیگاں سمجھا نہ کر
ساتھ لے کر ان کو چل جو بھی ترے ہمراہ ہیں
صرف اپنے جسم و جاں کو کارواں سمجھا نہ کر
اک حقیقت ہے تجھے کرنا ہے جس کا سامنا
اُس عدالت کو کبھی وہم و گماں سمجھا نہ کر
ہے کسی کے ہاتھ سے چلتا نظامِ کائنات
ہے وہی مالک اِسے اپنا جہاں سمجھا نہ کر
پھول جب کِھل جائیں سبزہ پھیل جائے ہر طرف
ہے علامت یہ بہاروں کی خزاں سمجھا نہ کر
تشنہ لب ہوں لوگ جب آئیں نظر تُجھ کو سراب
پھر بیابانوں کو ہی تُو گلستاں سمجھا نہ کر
معجزوں کے ساتھ ہوتا ہے خدا کا اقتدار
تُو مداری کے تماشوں کو نشاں سمجھا نہ کر
خوبصورت میرا لہجہ ہے مری شیریں زباں
تُو اسے طارق کا معمولی بیاں سمجھا نہ کر

0
28