سُن کے سوھنی کی کہانی داستاں سمجھا نہ کر |
عشق میں دیتا ہے جاں کوئی کہاں سمجھا نہ کر |
ہر کوئی تعبیر پائے گا جو دیکھے گا اسے |
زندگی کو ایک خوابِ رائیگاں سمجھا نہ کر |
ساتھ لے کر ان کو چل جو بھی ترے ہمراہ ہیں |
صرف اپنے جسم و جاں کو کارواں سمجھا نہ کر |
اک حقیقت ہے تجھے کرنا ہے جس کا سامنا |
اُس عدالت کو کبھی وہم و گماں سمجھا نہ کر |
ہے کسی کے ہاتھ سے چلتا نظامِ کائنات |
ہے وہی مالک اِسے اپنا جہاں سمجھا نہ کر |
پھول جب کِھل جائیں سبزہ پھیل جائے ہر طرف |
ہے علامت یہ بہاروں کی خزاں سمجھا نہ کر |
تشنہ لب ہوں لوگ جب آئیں نظر تُجھ کو سراب |
پھر بیابانوں کو ہی تُو گلستاں سمجھا نہ کر |
معجزوں کے ساتھ ہوتا ہے خدا کا اقتدار |
تُو مداری کے تماشوں کو نشاں سمجھا نہ کر |
خوبصورت میرا لہجہ ہے مری شیریں زباں |
تُو اسے طارق کا معمولی بیاں سمجھا نہ کر |
معلومات