شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
اس کی ادا میں یا تو وہ حدت نہیں رہی
یا دیکھنے کا میرا وہ انداز کھو گیا
یا اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
اس دور میں عجب ہے وفاؤں کو پالنا
کیوں میرے سوچنے میں وہ جدت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
کس دور سے گزر ہے یہ میرا کہ الاماں
کرنا جفا بھی جب کوئی بدعت نہیں رہی
میں ڈوب چکا اب ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی
یوں چھوڑ کر نہ جانا بھلانا نہیں مجھے
یہ بات کرنے کی مجھے ہمت نہیں رہی
کس طرح سےمیں شوق کی تکمیل اب کروں
چاہت مری کی اب تو ضرورت نہیں رہی
تیرا خیال رہتا تھا جو ہمسفر مرا
اب تیری یاد کی مجھے صحبت نہیں رہی
محسوس یہ کیا ہے ہمایوں نے تیرے میں
تم کو بھی میرے قرب کی حاجت نہیں رہی
ہمایوں

20