| ہائے کہ سجدہ گاہوں میں، ذوق جبیں کہیں نہیں |
| ہائے کہ میکدے میں اب، بادۂِ آتشیں نہیں |
| ایک ہے دل اور ایک ہم، دونوں کے درد مختلف |
| اپنا کوئی مکاں نہیں، اِس کا کوئی مکِیں نہیں |
| پہلے سی بات اب نہیں، تیرا کرم ہے نازنیں |
| سارے جہاں پہ تھا یقیں، اب کسی پر یقیں نہیں |
| تیرے بغیر اب کہاں، دل کا سکون دل رُبا |
| تیرے بغیر جانِ جاں، راحتِ جاں کہیں نہیں |
| اپنوں کو گِرتا دیکھ کر،کر نہ سکوں گا ضبطِ غم |
| بس اسی واسطے تو میں، جھاڑتا آستیں نہیں |
| عشق کے بیج 'بو' کے ہم،خون سے سینچتے ہیں پھر |
| دل کے مقابلے میں یار، کوئی بھی سرزمیں نہیں |
| مثلِ دِوانہ عشق کی،چال میں آ گیا حیاتؔ |
| ہائے کہ عقل بارہا، کہتی رہی 'نہیں نہیں' |
معلومات