مہرباں ہوں نہ جو حالات تو دکھ ہوتا ہے
کچلے جاتے ہیں جو جذبات تو دکھ ہوتا ہے
وقت کا کیا ہے بدلتا ہے بدل جائے گا
نا مساعد ہوں جو حالات تو دکھ ہوتا ہے
با ت بے بات بڑھے بات تو دکھ ہوتا ہے
غمِ دنیا ہو غمِ ذات ہو دکھ ہوتا ہے
جھولی خوشیوں سے بھرے گا یہ تھا دعویٰ جس کا
بھیج دے اشکوں کی سوغات تو دکھ ہوتا ہے
غیر کاظلم بہرحال میں سہہ جاتی ہوں
اپنے جب دیتے ہیں صدمات تو دکھ ہوتا ہے
ساتھ تیرے تو خزاں بھی ہے گوارہ مجھ کو
تیرے بن گزرے جو برسات تو دکھ ہوتا ہے
دم جو بھرتے ہیں شب و روز وفا داری کے
جب دکھا تے ہیں وہ اوقات تو دکھ ہوتا ہے
طاہرہ مسعود

12