چشمِ نم سے واقعہ میں نے سُنا ہے آج جو |
جی میں آیا ہے سناؤں آپ کو بھی دوستو |
میں گیا مطبع پہ جب اپنی کتابوں کے لئے |
بیٹھنا مجھ کو پڑا کچھ دیر باتوں کے لئے |
مالکِ مطبع تھا ہاتھوں سے ہوا کو جھل رہا |
اور بھی کچھ ذہن میں تھا اس کے شاید چل رہا |
میں نے پوچھا تو وہ بولا معذرت کرتا ہوں میں |
کسٹمر سگریٹ پی کر ہے گیا ڈرتا ہوں میں |
پھر کہا اس نے لکھا ہے میں نے سگریٹ مت پیو |
باز آتے ہی نہیں کرتا تو ہے دل ، ڈانٹ دو |
پھر وہ یہ کہنے لگا میں خود رہا ہوں مبتلا |
جانتا ہوں میں نشہ سگریٹ کا ہے ہی بُرا |
اک زمانے میں بڑے سگریٹ پی جاتا تھا میں |
اک کے بعد اک دوسرے کا لطف بھی پاتا تھا میں |
یاد پڑتا ہے نیا آیا تھا میں پر دیس میں |
کام وہ کرنا پڑا کرتا نہ تھا جو دیس میں |
اک بڑے سے نام والی چین کا اسٹور تھا |
میرا خالی شیلف بھرنے پر ہی سارا زور تھا |
دن ذرا مشکل تھے لیکن تھا گزارا ہو رہا |
رات بھر میں کام کرتا دن کو تھا میں سو رہا |
میری بچی جس کی ہو گی عمر تب تو ایک سال |
آگئی وہ ساتھ ماں کے شوخیوں کی ، تھی مثال |
گھوم کر اسٹور میں وہ خوش رہی ، کہنے لگی |
اک کھلونا ہے پسند آیا وہ لے کر دو ابھی |
میری قیمت پر نظر بھی اتفاقاً جا پڑی |
پونڈ دیکھے تیس سے اوپر تو بیوی بھی ڈری |
ڈانٹ کر میں نے کہا، ہم کیسے لے سکتے ہیں یہ |
اس طرف دیکھو کھلونے کچھ ادھر سستے ہیں یہ |
لے نہ سکتے تھے کھلونا ، اس کو پھر بہلا دیا |
دوسرا شاید کھلونا لے کے بس پُھسلا دیا |
وہ مگر کہتی رہی اس کو کھلونا چاہئے |
وہ پسند آیا تھا جو بس اور کچھ نہ چاہئے |
اپنی ضد پر گھر کو جاتے وقت بھی قائم رہی |
میں بھی غصّے میں تھا کیفیّت یہی قائم رہی |
وہ تو رو دھو کر چلی آئی خموشی چھا گئی |
اس کی پہلی ضد تھی شاید وہ ذرا کُملا گئی |
میں نے کونے پر دکاں سے جب لئے سگریٹ تو |
کہہ دیا مالک نے مہنگا ہے بچا باقی ہے جو |
میں نے گیارہ پونڈ میں سگریٹ کا اک پیکٹ لیا |
جو مرے ساتھی تھے اس میں سے سبھی کو اک دیا |
دیکھتے ہی دیکھتے پیکٹ ہوا نظروں سے گُم |
سوچتا میں رہ گیا کہ اب کہاں جاؤ گے تُم |
پھر میں نکلا ڈھونڈنے کچھ اور باقی رات تھی |
اور سگریٹ کے بنا رہنا تو مشکل بات تھی |
اس دکاں پر اب ہوئے سگریٹ سارے ختم تھے |
کچھ ورق ، فلٹر ، تمباکو ہی بچے اب نرم تھے |
پونڈ پورے تیس اس کو پھر سے اب دینے پڑے |
اپنی مجبوری سمجھ کر جو ملے ، لینے پڑے |
لے کے تمباکو جو میں پہنچا ہوں پھر اسٹور پر |
مجھ کو مالک نے کہا دیکھو ذرا اس ڈور پر |
میں گیا تو سامنے ہی وہ کھلونا تھا پڑا |
میری بیٹی نے کیا تھا جس پہ ہنگامہ بپا |
میں نے سوچا اس کی ضد تو میں نہ پوری کر سکا |
تھا بہت مہنگا کھلونا میں نہ پورا پڑ سکا |
پر مرے سگریٹ پر میرا ہے جو خرچا ہوا |
اس کھلونے کی وہ قیمت سے کہیں آگے بڑھا |
اپنی بچی کا جو چہرہ سامنے آیا مرے |
میں نے غصّے سے نکالے تھے جو تمباکو لئے |
بِن میں ان کو پھینک کر جو چین میں نے پا لیا |
بعد اس کے ہاتھ میں ، سگریٹ اب تک نہ لیا |
معلومات