ہلکی سی چلتے چلتے پہچان ہو گئی تھی |
اس وقت دل میں میرے ارمان ہو گئی تھی |
جب مدعا نکل آیا ہی زباں پہ آخر |
تو دھیرے دھیرے وہ بھی قربان ہو گئی تھی |
آغاز میں سُروری و بے تابی چھائی لیکن |
پھر ماند کیسی پر جو مسکان ہو گئی تھی |
کپڑے کبھی تو زیور، فرمائشیں نہ رکتی |
نوبت لڑائی جیسی مابین ہو گئی تھی |
جزبات جو تھے پہلے غائب ہوئے اچانک |
بدلی بھی کیفیت جو دوران ہو گئی تھی |
کھائی تھی قسمیں جینے مرنے کی ساتھ ملکر |
فکریں ہی ساری اہلِ زندان ہو گئی تھی |
کچھ خواب کے لئے ناصؔر کچھ کسی کی خاطر |
بس اپنی زندگی ہی عنوان ہو گئی تھی |
معلومات