محبت مروت سلامت نہیں ہے
کروں جو ٰعداوت ضرورت نہیں ہے
ستمگر سے کہہ دو ستم نا کرے اب
مرے دل کا جذبہ بغاوت نہیں ہے
بڑا تجھ کو مانا بڑا تو نہیں تھا
حقیقت یہی ہے عداوت نہیں ہے
اسے جب سے جانا یہی ہے بتانا
مرے دل میں تیری عقیدت نہیں ہے
تجھے جو تھا چاہا حماقت ہوئی تھی
مرے دل میں اب یہ سہولت نہیں ہے
سبھی کو بتا دو کبھی یہ نہ کرنا
محبت میں اب وہ سخاوت نہیں ہے
سنا ہے بزرگوں سے ہم نے یہی تو
محبت میں اب وہ کرامت نہیں ہے

0
56