| درد سر پر سوار رہتا ہے |
| دور مجھ سے جو یار رہتا ہے |
| اس کو دیکھوں تو کچھ دنوں باقی |
| ہلکا ہلکا خمار رہتا ہے |
| اس گلی کا ادب بھی لازم ہے |
| جس میں حضرت، وہ یار رہتا ہے |
| وقت خیرات میں وہ دیتے ہیں |
| پر مجھے انتظار رہتا ہے |
| تنگ کرتا ہوں چھوڑ دوں گا میں |
| اس پہ اکثر سوار رہتا ہے |
| درد سے ہم تو آشنا ہو گئے |
| کون اتنا بمار رہتا ہے |
| مات جس کا بھی یار دے اس کو |
| موت کا انتظار رہتا ہے |
| ملنا مشکل ہے یوں ہوا اس کو |
| جیسے سرحد کے پار رہتا ہے |
| خاص کرتے ہیں جن کو وہ اپنا |
| میرا ان میں شمار رہتا ہے |
| وہ اٹھا نا دیں اپنی محفل سے |
| دل کو ڈر بار بار رہتا ہے |
| بات کرتا ہے مکر جانے کو |
| عادتًا بھی فرار رہتا ہے |
| سوچتے ہیں یہ ہو گیا کیسے |
| دل کیوں اس پر نثار رہتا ہے |
| جس کو دیدارِ یار ہو جائے |
| اس کے منہ پر نکھار رہتا ہے |
| جو ہیں ہم یہ انا پرست تو کیا |
| اس سے باقی وقار رہتا ہے |
| بعد مدت کے ہے ملا ثاقب |
| جس سے دل کو قرار رہتا ہے |
معلومات