ہے یہ ماجرا میرا کوئی ماجرا نہیں |
مرا مسئلہ ہے جو ترا مسئلہ نہیں |
بچھڑ کر یہ ٹھانی تھی تجھے سوچنا نہیں |
بہت شرم ہے اپنا کہا بھی کیا نہیں |
عجب ہو گیا کچھ، ہونا تھا جو ہوا نہیں |
تجھے کیا کہوں جب خود پہ بھی بس چلا نہیں |
اٹھی ہے جی میں خواہش، لکھوں آج کچھ طویل |
یہ خواہش بھلی ہے پر تخیل بھلا نہیں |
اچھا ہے، ذہیں ہے، سرو قد ہے تُو، اور تو اور |
جواں ہے، حسیں ہے، شوخ ہے، باوفا نہیں |
تری آنکھیں ہیں گویا کسی ناگنی کی طرح |
کہ ان کا ڈسا ہے جو کوئی وہ بچا نہیں |
تواریخ کو جھٹلا دیا عشق میں ترے |
میں وہ شخص ہوں جو اپنے حق میں اچھا نہیں |
عجب عیش و عشرت میں مری زندگی گئی |
ہے وہ مژدۂِ فرحت کہ کوئی گلہ نہیں |
پڑا ہوں بہت بے کار،بے زار بے شمار |
کوئی یاد ہے، پل بھر کو جس سے جدا نہیں |
بہت پاس سے دیکھا ہے اہلِ زمین کو |
مگر حیف کوئی دل بھی یاں پارسا نہیں |
جہاں بھی نظر دوڑا کے دیکھو زمانے میں |
کہ لفظِ وفا ہے صرف، کارِ وفا نہیں |
مرا جو کیا ہے، مرا سب کچھ ہے ناگوار |
جو تیرا کیا ہے کوئی صورت برا نہیں؟ |
بہت بے اثر ہے میری ہر بات ہر دلیل |
مری بات بھی ہے بات کوئی ہوا نہیں |
مروت؟ مروت اور دنیا کا لفظ ہے |
یہاں تو میاں ایسا کوئی سر پھرا نہیں |
تری جعل سازی پر تحیر نہیں مجھے |
کسی کو تحیر سے کبھی کچھ ملا نہیں |
ترے منہ پہ تیرا میرے منہ پر مرا، رقیب |
بہت دوغلا بھی ہے فقط بے حیا نہیں |
وہ بھی دن تھے تجھ سے سلسلہ تھا حیات کا |
ہے اب حالتِ بے حال کچھ سلسلہ نہیں |
یہ کچھ کم اذیت تو نہیں ہے کہ تجھ سے میں |
فقط آشنا ہوں اب کوئی رابطہ نہیں |
بلا بن کے آئی تیری فرقت اے جانِ جاں |
کوئی دم بھی اس تکلیف سے میں رہا نہیں |
کبھی سوچتا ہوں میں کسی الجھی سوچ میں |
کہ ہاں سوچنے میں تو کوئی مسئلہ نہیں |
کوئی بات تو ہے حشر برپا کوئی تو ہے |
کوئی زخم تو ہے ، بے سبب چیخنا نہیں |
بس اک بے دلی سی بے دلی میں ہوں مبتلا |
کوئی راز ہے شاید جو مجھ پر کھلا نہیں |
پڑا رہتا ہوں بوسیدہ بستر پہ رات دن |
بہت دن ہوۓ آنگن تلک بھی گیا نہیں |
فقط کہنے کو ہیں وحشیں سب فراق میں |
ہے دل بھی سلامت اور سر بھی پھٹا نہیں |
عجب کشمکش میں مبتلا ہوئی زندگی |
میں اک طرح تجھ سے ہوں جدا، پر جدا نہیں |
کوئی فلسفی ہے یا خودی فلسفہ ہے عشق |
کوئی فیصلہ اس میں اٹل فیصلہ نہیں |
اگلوا لوں گا تجھ سے کبھی مے پلا کے میں |
سبھی راز تیرے جن سے میں آشنا نہیں |
میں اک عمر بھٹکا ہوں زمانے میں ہی مگر |
ہے یہ حادثہ کوئی مجھے جانتا نہیں |
ترے ہاتھ میں ہے جو یہ دیوانِ زیبؔ ہے |
کہ یہ رجز و توبیخ و ملامت سوا نہیں |
یہ وحشت سی وحشت ہے جنابِ اسامہ زیبؔ |
اسے سوچنا بھی ہے، مگر سوچنا نہیں |
معلومات