بات تو سچ ہے کہ ہے کچھ چاند پر لکھا ہوا
ہاں مگر ثابت نہیں کیا ہے جو ہے ابھرا ہوا
کوئی یہ کہتا ہے اس پر نام ہے لکھا ہوا
مجھ کو لگتا ہے کہ یہ کچھ اور ہے ابھرا ہوا
بعض کا کہنا ہے کچھ اور بعض کا کہنا کچھ اور
کیا ہے آخر چاند کے سینے پہ یہ ابھرا ہوا
جس گھڑی زہرا کے در پر تارے نے سجدہ کیا
دیکھتا تھا چاند سجدہ تارے کو کرتا ہوا
کیوں نہ پائی میں نے وہ قسمت جو تارے کو ملی
چاند پر اب بھی ہے حسرت کا نشاں ابھرا ہوا

0
30