ابنِ آدم ہوں خطائیں ساتھ پلتی ہیں
حق بیانی پہ سزائیں ساتھ ملتی ہیں
ہر مسافت میں سایۂ سر پہ رہتا ہے
میری ماں کی دُعائیں ساتھ چلتی ہیں
ٹھہرتا نہیں کوئی تنہا شجر کے نیچے
سُنا ہے صحرا میں بلائیں ساتھ رہتی ہیں
صحرا میں بھٹکے مسافر کے لئے افری
جلاؤ چراغ تو ہوائیں ساتھ چلتی ہیں

0
16