وہ جو عرفان کے چشمے سے پلاتا ہے مجھے
روز قدرت کا نیا جلوہ دکھاتا ہے مجھے
یوں تو دیدار نصیبوں سے ہوا کرتا ہے
وہ قریب آنے کا مژدہ بھی سناتا ہے ، مجھے
حسن سے اس کے تو شرماتے ہیں مہتاب و گلاب
پھر یہ کیوں کہتے ہو دیوانہ بناتا ہے مجھے
اس سے ملنے کی تمنّا مجھے بیتاب رکھے
آ کے خوابوں میں مرے کون جگاتا ہے مجھے
کس کی یادوں میں گزرتا ہے مرا دن یارو
رات کے پچھلے پہر بھی وہ اٹھاتا ہے مجھے
جب کہیں کوئی حسیں ہم کو نظر آ جائے
اک فقط وہ ہے کہ یاد آ کے ستاتا ہے مجھے
اس کی رنگینئ لب دیکھ کے ہے یاد آیا
خندہ گل اپنی طرف کیوں لئے جاتا ہے مجھے
دل کا شاگرد ہوا ، پہنچا کہاں ہوں طارق
کیا سبق خاص یہ استاد پڑھاتا ہے مجھے

0
38