مدہوش و بے خبر جو تھے بے زباں سے، |
تڑپے ہیں عمر بھر اس دردِ جہاں سے۔ |
آنکھوں میں نمایا ہے عالم دل کا، |
حال ایسا ہے جو باہر ہے بیاں سے۔ |
اک عمر درِ یار کو تکتے گزری، |
آواز کوئی آئی یاں سے نہ واں سے۔ |
ہر موڑ پہ تھے آنکھوں کے دریچے، |
بس دیکھنا تھا وہ جاتا ہے کہاں سے۔ |
یہ برق و باد اور طوفاں کیسا ہے؟ |
محروم ہو تو چکے ہیں اس آشیاں سے۔ |
عالم وحشت پھیلا ہوا ہے جہاں میں، |
غم الجھے ہیں بہاروں کے بھی خزاں سے۔ |
منزل پہ ہیں شورشیں قیامت کی گر، |
تو آ گئے ہیں وہیں، چلے تھے جہاں سے۔ |
معلومات