| مجھے کچھ شعر کہنے تھے | 
| کہیں اک نظم مجھ کو ڈھونڈتی تھی | 
| کہ میں لفظوں کو بُنتا ، حرف چن لیتا ،بہت سے استعارے گوندھتا | 
| خیالوں کو کسی قرطاس پر لاتا | 
| میں شہر آشوب میں خود اپنے ہونے اور نہ ہونے کے سبھی قصے سناتا | 
| میں سہلِ ممتنع میں زیست کے الجھے اُلجھتے تار سہلاتا | 
| قلم شمشیر کرتا تو مری شمشیر بندوقوں سے ٹکراتی ، | 
| صفوں کو چیرتی ، ایوانِ ظلمت میں دراڑیں ڈال دیتی | 
| مری یہ جنگ میری نظم لڑتی | 
| نہ مجھ کو ناوکِ دشنام کا کچھ خوف ہوتا ، نہ ڈرتا میں کسی سنگِ ملامت، لومہ لائم سے | 
| مگر مجھ کو ابھی کچھ کام کرنا ہے | 
| ابھی میں ترجمہ کرنے لگا ہوں ایگر ایلن پو کے قصوں کا | 
| کہ گھر کیسے گرا، اور کالی بلی کون تھی، | 
| یا زندہ دفن کردہ شخص کا قصہ | 
| اور اس صندوق میں کیا تھا؟؟؟ | 
| ابھی وٹس ایپ کے نوٹی فکیشن بھی مرے سر پر کھڑے ہیں | 
| وہاں بھی چند نظمیں اور غزلیں میرا پیچھا کر رہی ہیں | 
| مرے اطراف میں کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں | 
| انہی باتوں میں میری نظم کے مصرعے بکھرتے جا رہے ہیں | 
| ابھی کچھ دیر تک میں بھول جاؤں گا | 
| کہ میری نظم کا عنوان کیا تھا | 
| ابھی کچھ دیر مجھ سے بات مت کرنا | 
| مجھے درکار ہے کچھ وقت اپنے آپ سے افسوس کرنے کو | 
| مجھے کچھ شعر کہنے تھے | 
| مری نظمیں ادھوری رہ گئی ہیں | 
| ۔۔۔ | 
| حماد یونس | 
    
معلومات