نا آشنائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
یوں بے وفائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
تھی خواہشِ دل و جاں تو وصل کی مگر اب
ان سے جدائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
رنجور حال اپنا دکھتا ہے اس قدر کہ
اب جگ ہنسائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
نادار کو کہاں تھی راحت کہ اور بھی اب
یہ ابتلائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
بیتے ہیں دن خوشی کے سنسار میں دوبارہ
غم کی کمائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
مفلس کو چاکِ دامن کی فکر اب ہے لاحق
جب سے ٹھگائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
ہم تو امیدیں لے کر بیٹھے ملن کی ان سے
الٹا لڑائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
ساغر خدا سے مانگو رحمت کی بھیک ورنہ
ظالم خدائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ

0
130