سرِ شامِ ہجر دِوانے گھر تو نہیں گئے |
ذرا دیکھ تو لو کہیں وہ مر تو نہیں گئے |
چلو مان لیتے ہیں خاک ہوکے ہی آئے ہیں |
مگر اپنے وعدے سے ہم مکر تو نہیں گئے |
کسی رات سے مجھے دشتِ ذات میں لائے ہیں |
ترے ہجر جانِ جاں بے اثر تو نہیں گئے |
کسی دل گلی میں کہیں وہ حشر بپا نہیں |
کہیں وہ بھی دل سے مرے اتر تو نہیں گئے |
سفرِ جنون بھی ختم ہونے کو آیا ہے |
وہ تمہاری یاد کے زخم بھر تو نہیں گئے |
ہمیں بھی خبر نہیں ہم کہاں گئے اس کے بعد |
مگر اس کے کوچے سے اٹھ کے گھر تو نہیں گئے |
ارے بے خبر ذرا دیکھ دل کے سرائے میں |
وہ جو قافلے رکے تھے گزر تو نہیں گئے |
رہِ شوق میں ہوئے ہیں اگرچہ لہو لہو |
مرے لڑکھڑاتے قدم ٹھہر تو نہیں گئے |
یہ تمہارے چہرے کا دیکھو رنگ ہی اڑ گیا |
ہمیں زندہ دیکھ کے آپ ڈر تو نہیں گئے |
یہ اٹھا ہے شور کہاں کہیں مرے گھر کے پھول |
کسی آئینے کی طرح بکھر تو نہیں گئے |
یہی دم بہ دم رہی باغبانِ چمن کو فکر |
کہیں خار دامنِ گل کتر تو نہیں گئے |
بڑی دیر دریا کو دیکھے جا رہے ہو جناب |
کہیں آپ کوئی ارادہ کر تو نہیں گئے |
معلومات