ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
کبھی وہ وقت آئے گا |
در و دیوار بولیں گے |
اگر زنداں میں ڈالا تو |
پسِ دیوار بولیں گے |
اگر لب سی دیئے تم نے |
خموشی بول اٹھے گی |
اگر خنجر کو دھو یا تو |
تہاری آستینوں سے |
ہمارا خون ٹپکے گا |
ہمارے خون کی خوشبو |
سرِبازار بولے گی |
ہزاروں راز کھو لے گی |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
حقیقت کہنے والوں کی |
زبانےں کاٹی جا تی ہیں |
حقیقت سننے والوں کا |
برا انجام ہو تا ہے |
سرِ بازار رسوائی |
مقدر کر دی جاتی ہے |
جو لکھتا ہے حقیقت کو |
وہ جاں سے ہاتھ دھوتا ہے |
جو اٹھتی ہے گواہی کو |
وہ انگلی کاٹ دیتے ہیں |
وہ سر جو جھک نہیں پاتا |
وہ شانے پر نہیں رہتا |
جو چہرہ بول اٹھتا ہے |
وہ پہچانا نہیں جا تا |
حقیقت پھر حقیقت ہے |
مگر مانا نہیں جاتا |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
ابھی تو میری دنیا کا |
ہر اک دستور الٹا ہے |
جو الٹا ہے وہ سیدھا ہے |
جو سیدھا ہے وہ الٹا ہے |
جو پھولوں سے بھی نازک ہو |
یہاں پر خار کہلائے |
جو سر تا پا فرشتہ ہو |
یہاں شیطان کہلائے |
ملا ہے ہر کمینے کو |
خطاب عزت مآبی کا |
سبب کیسے کوئی سمجھے |
تباہی کا خرابی کا |
یہاں جو شمعِ محفل ہو |
وہی ما دام کہلائے |
حقیقت کی زباں میں جو |
سرائے عام کہلائے |
کھڑی ہے چپے چپے پر |
برائی دام پھیلا ئے |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
یہاں پر بولنے والی |
زبانےں کھینچی جاتی ہیں |
یہاں پر دیکھنے والی |
نگاہوں میں اگر کوئی |
ذرا بھی نا گواری ہو |
تو ان کو پھوڑ دیتے ہیں |
کسی کو اپنے کانوں میں |
فحش باتوں سے بچنے کو |
جو انگلی ٹھونستے پایا |
تو ایسے نا مہذب کی |
سزا ہے کھولتا سیسہ |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
اگر حالات پر لہجہ |
کسی کا تلخ ہو جائے |
تو لہجہ کی وہی تلخی |
اسی کی روح کے اندر |
کچھ ایسے کھولی جاتی ہے |
کہ اس کے پورے پورے سے |
لہو کا ایک اک قطرہ |
ٹپک کر بہ نکلتا ہے |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
سنا ہے ہم نے لوگوں سے |
یہاں انصاف ملتا ہے |
بہت شفاف ملتا ہے |
یہاں پر جب عدالت ہو |
تو دولت کی وکالت ہو |
زباں کوئی عدالت کی |
برائی میں نہ کھلتی ہو |
کسی مظلوم کے حق میں |
گواہی پر نہ کھلتی ہو |
گواہی ظلم کے حق میں |
اگر ہو پیش کی جائے |
مگر مظلوم کے حق میں |
اگر کوئی زباں کھو لے |
وہ اپنی جان کو رو لے |
یہاں ایمان بکتا ہے |
یہاں انسان بکتا ہے |
یہاں پر دام لگتے ہیں |
کوئی بے دام بکتا ہے |
یہاں پر جرم کر نے پر |
بڑے انعام ملتے ہیں |
نوازش ان پہ ہو تی ہے |
بڑے اکرام ملتے ہیں |
خزانہ لوٹنے والے |
بڑے انعام پاتے ہیں |
مرادیں پوری ہو تی ہیں |
بری ہو ہو کے جا تے ہیں |
جو خالی ہاتھ ہو تے ہیں |
وہی بدنام ہو تے ہیں |
انھیں کے سر پے دنیا کے |
سبھی الزام ہو تے ہیں |
یہاں مظلوم کو زنداں |
کی خوش خبری سنا تے ہیں |
یہاں مقتول کو قاتل |
بنا تے ہیں بتا تے ہیں |
لہو کو چوسنے والا |
یہاں پہ سرخ رو ٹھہرے |
مگر مقتول کا دعویٰ |
بہت بے آبرو ٹھہرے |
یہاں عسرت برائی ہے |
یہاں غربت برائی ہے |
یہاں پر آبرو مجرم |
یہاں غیرت برائی ہے |
یہاں عزت مآبوں کی |
بہت پگڑی اچھلتی ہے |
شرافت کی یہاں ہر سو |
بڑی تذلیل ہو تی ہے |
برے انعام والے ہیں |
بھلے الزام والے ہیں |
برے انجام والے سب |
بہت ہی نام والے ہیں |
عجب دورِ زمانہ ہے |
حقیقت بھی فسانہ ہے |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
سنا ہے ہم نے لوگوں سے |
یہاں قانون چلتا ہے |
یہاں قانون چلتا ہے |
ذلیلوں کا رضیلوں کا |
سفیروں کا وزیروں کا |
سراسر بے ضمیروں کا |
یہاں قانون چلتا ہے |
غریبی پر امیری کا |
شریفی پر کمینی کا |
بھلائی پر برائی کا |
بروں کی باد شاہی کا |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
کہ ہم سب بے ضمیرے ہیں |
برائی کے سفیرے ہیں |
کسی مظلوم کے حق میں |
گواہی دے نہیں سکتے |
کسی ظالم سے ہم کوئی |
برائی لے نہیں سکتے |
کسی ظالم سے آنکھوں کو |
ملا نا ہی نہیں آتا |
حقیقت میں حقیقت کو |
بتانا ہی نہیں آتا |
ابھی وہ جراتیں کب ہیں |
ابھی وہ ہمتیں کب ہیں |
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے |
یہاں پر بولنے والا |
ابھی موسم نہیں آیا |
مگر مو سم تو آئے گا |
ضمیروں کو جگائے گا |
ہر اک مظلوم کا چہرہ |
ہنسے گا مسکرائے گا |
معلومات