تھم گئی ہیں وقت کی نبضیں قیامت آ گئی
ابنِ آدم کی مجھے لگتا ہے شامت آ گئی
کون ہوں کس دیس سے آیا ہوں مَیں کس کو پتہ
آپ آئے تو مرے قد میں بھی قامت آ گئی
ابتدائے عشق میں تھا کچھ تلوّن آشنا
ٹھوکریں پڑتی گئیں تو استقامت آ گئی
یہ مریدوں کا کرم ہے معجزے ہونے لگے
آج تک لا علم تھا ایسی کرامت آگئی
جب کسی سائل نے فاقوں کی سنائی داستاں
اپنے اسرافات پر واللہ ندامت آ گیٔ
ختم ہو گیں عسرتیں کب کب ڈھلے گی شامِ غم
ہم سبھی محشر میں ہیں اک اک علامت آگئی
وہ بھی دن تھے خواجہ صاحب بات کر آتی نہ تھی
اب تو اللہ کا کرم ہے کچھ نظامت آگئی

121