بس اتنی بات تھی
اک دن
اسے اس کے کسی اک آشنا نے
دور سے آواز دی تھی اور
وگرنہ وہ تو مجھ سے ملنے والی تھی
اسے میں نے بلایا تھا
اسے تو مجھ سے ملنا تھا
اچانک کیا ہوا
اس کے قدم رستہ بدلنے کیوں لگے
میری محبت جھوٹ نکلی
اور پھر بے باک ہو کر
چل پڑی رستہ بدل کر وہ
اس اپنے آشنا کی بات سننے
اس نے سوچا ہی نہیں، جانا نہیں
میری محبت جھوٹ نکلی
کاش! اسی دم موت آ جاتی مجھے
وہ دیکھتی میرا جنازہ
آشنا آ کر تسلی دینے لگتا
وہ بہت روتی، مگر
میری محبت جھوٹ نکلی
پھر میں تنہاؔ چل دیا
اپنا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے
مسکرایا آشنا اس کا
مری احساسِ محرومی پہ
اس دن بڑھ گیا ایمان
اس کے آشنا کا پنجتن پر
اور یقیں جاتا رہا میرا
خدا سے
بات اتنی تھی
محبت جھوٹ نکلی تھی

0
89