جرأت کے سامنے یہ طوفان کچھ نہیں
صبر و شکیب ہو تو عُدوان کچھ نہیں
جکڑے ہوں دام گستر کے جب شکنجہ میں
شیرہ ءِ جاں کے درد و ضربان کچھ نہیں
جزباتِ عشق میں بھی مغلوب ہونے سے
جرمِ وفا میں حائل زندان کچھ نہیں
ہے موت سے قیامت کا فاصلہ بہت
برزخ کا لے لیا پر سامان کچھ نہیں
گلزار تھے کبھی ناصؔر جن کے خوشنما
اک قبر پر ہے پودہ، پہچان کچھ نہیں

0
39