بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے
جہاں پر تیرگی ہی تیرگی ہے
جسے پردیس جاکر ڈھونڈ تے ہو
تمہارے دیس میں ہی وہ خوشی ہے
امارت کا نشہ بتلا رہا ہے
بسی دل میں ابھی تک مفلسی ہے
محبت جس کی بنیادوں میں تھی وہ
عمارت آج بھی سیدھی کھڑی ہے
زباں سے دوستی دل میں عداوت
سیاست آپ نے بھی سیکھ لی ہے
کسی کی آہ کانوں میں پڑی تھی
وہی آواز دل میں چبھ رہی ہے
دیا بجھتا ہے تو بجھ جائے طیب
کہاں جلنے سے اسکے روشنی ہے
محمد طیب برگچھیاوی

0
52