خدا نے کیسے تماموں کی آبرو رکھ لی |
اُٹھے ہُوئے سبھی ہاتھوں کی آبرو رکھ لی |
زباں سے بول عیادت کے ہی ادا جب ہوں |
"مزاج پوچھنے والوں کی آبرو رکھ لی" |
رہی تھی فاقہ کشی سے روِش دگرگوں سی |
سُدھر گئے اُنہیں حالوں کی آبرو رکھ لی |
خموشی اور رہیں ہولناکیاں چھائیں |
کہ صبحِ نو کے اجالوں کی آبرو رکھ لی |
تھے قدردان بڑے اس لئے سراہا ہو |
نئے نئے سے خیالوں کی آبرو رکھ لی |
مجال ہی نہیں لوٹے وہاں سے خالی جو |
سخی کے در نے سوالوں کی آبرو رکھ لی |
سمجھ میں آئے نہ آئے، کسی کی بَڑ ناصؔر |
مگر سُنی ہو تو باتوں کی آبرو رکھ لی |
معلومات