| انسانیت کو کھل کے کریں پائمال لوگ |
| اب تو منافقت میں ہوئے با کمال لوگ |
| جن کو اصول یاد تھے الفت کے وہ گئے |
| اب تو ہیں خال خال یہاں خوش خصال لوگ |
| تہمت لگا کے مجھ پہ، مجھے مار بھی سکیں |
| اب پوچھتے ہیں مجھ سے سبھی وہ سوال لوگ |
| تلقینِ صبر بھی تو یہاں جبر ہے میاں |
| یوں بھی دلا رہے ہیں مجھے اشتعال لوگ |
| کہتا ہوں ٹھیک ٹھاک توقف کے بعد میں |
| جب پوچھتے ہیں مجھ سے مرا حال چال لوگ |
| آہ و بکا نہیں نہ یہاں چیخ اور پکار |
| چپ چاپ مر رہے ہیں یہ غم سے نڈھال لوگ |
| چہرے پہ مضطربؔ جو مرے کچھ نکھار ہے |
| بیٹھے تھے آس پاس مرے خوش جمال لوگ |
معلومات